Saturday, May 1, 2010

مسلم ریاست میں مسلمان غریبب

یس برسوں کے دوران پہلی اقتصادی سروے
سرینگر//ریاستی سرکار کی طرف سے کی گئی سروے میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر میں مسلم آبادی کی اقتصادی حالت کمزور ہے اوراکثریتی فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ دیگر فرقوں کے مقابلے میں غریب ہیں۔ رواں برس کے دوران اکنامکس اینڈ اسٹیٹکس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کی گئی اکنامک سروے میں کہاگیا ہے کہ ریاست میں زیادہ تر غریب مسلم اکثریتی فرقہ ہے ۔ اس سروے رپورٹ کو ریاستی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران پیش کرنا تھا لیکن حکومت کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود اسے پیش نہیں کیاگیا۔سروے رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ریاست کی کل آبادی میں سب سے زیادہ شرح جوخطہ افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں وہ مسلمانوں کی ہے ۔اکنامک سروے رپورٹ جو گذشتہ بیس برسوں میں پہلی بار تیار کیاگیا ہے ،میں کہاگیا ہے ”خطہ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والی آبادی میں مسلمانوں کی شرح 24.51فیصد،اسکے بعد بودھوں کی شرح 24.50،ہندوﺅں کی 18.14فیصد، سکھوں کی 7.51 اور عیسائیوںکی 3.12فیصد ہے۔ تاہم رپورٹ میں مسلمانوں میں غریبی کی وجہ کے محرکات کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہاگیا ہے“۔ اکنامکس اینڈ اسٹیٹکس کے ڈائریکٹر جی این قریشی نے بتایا کہ جو سروے کرائی گئی ہے وہ صرف ریاست میں خطہ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی نشاندہی کرنے کےلئے کی گئی۔ جموں اورکشمیرمیں بی پی ایل زمرے میں 24.21لاکھ لوگ آتے ہیںاس میں دیہی آبادی کا تناسب 26.14فیصداورشہری آبادی کا تناسب 7.96فیصد ہے۔ کشمیر وادی میں بی پی ایل کی کل آبادی 21.37فیصد (12لاکھ 91ہزار) ہے، لداخ میں یہ شرح 27.03ہے جو کہ کشمیر ڈویژن کا ہی حصہ ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ دیہی سطح پر کشمیر میں جموں کے مقابلے میں بی پی ایل کی شرح اور تعداد زیادہ ہے۔ کشمیر ڈویژن کے دیہی علاقوں میں بی پی ایل آبادی کا شرح تناسب 26.58ہے جبکہ جموں میں یہ تناسب 25.61ہے۔ تاہم جموں ڈویژن کے شہری علاقوں میں یہ تناسب کشمیر کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ جموں کے شہری علاقوں میں 8.19 فیصد جبکہ کشمیر میں یہ شرح تناسب 7.81ہے۔ جموں ڈویژن میں بی پی ایل کی کل آبادی 10لاکھ 59ہزار ہے ۔ مسلم آبادی میں غریبی کا شرح تناسب اس امر کے باوجود زیادہ ہے کہ پرائمری سطح پر مسلمانوں کے بچے 2005میں5.3لاکھ تعلیم حاصل کر رہے تھے جبکہ لڑکے اورلڑکیوں کا تناسب 50.3اور49.7تھا۔مسلمانوں میں تعلیم کی شرح 25فیصد بڑھ گئی ہے جبکہ خواتین میں یہ شرح 23فیصد گذشتہ بیس برسوں کے دوران بڑھ گئی ہے۔ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ وادی کشمیر میں ہر سال مسلم گریجویٹ 16ہزار سے بھی تجاوز کر گئے ہیں اور ہر سال پوسٹ گریجویٹ کورسز 3ہزارتک بڑھ گئے ہیں۔ خواتین کی تعداد جو اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں،وہ کل تعداد 57ہزار میں سے 25 ہزار ہیں۔اس سے قبل بی پی ایل کی جو سروے کی گئی تھی، اُس میں مسلم فرقے کی اقتصادی حالت کے حوالے سے ایک پیچیدہ تصویر سامنے آئی تھی۔ یہ سروے بھی ڈائریکٹوریٹ آف اکنامک اینڈ اسٹیٹکس نے کی تھی۔ اس میں بتایاگیا تھا کہ مسلم اکثریتی فرقے میں غریبی کی شرح زیادہ ہے اس کے علاوہ خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں بتایاگیا تھا کہ وادی میں کپوارہ اور بانڈی پورہ کے علاوہ کرگل اضلاع سب سے زیادہ غریب ہے جبکہ جموں خطے میں رام بن ، کشتواڑ ، پونچھ اور ریاسی اضلاع غریب پائے گئے ہیں۔ اُس وقت جو سروے کی گئی تھی، اُس میں غریبی کی وجہ ناخواندگی کو قرار دیاگیا تھا۔ اب کی بار جو سروے کی گئی ہے اُس میں جن باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ سچر کمیٹی رپورٹ سے متضاد ہےں۔ کیونکہ سچر کمیٹی رپورٹ میں وادی سے تعلق رکھنے والے مسلم اکثریتی فرقے کی تعلیمی شرح کوحوصلہ افزا قرار دیا گیا تھا۔

No comments:

Post a Comment