Sunday, February 28, 2010

وادی ٔ کشمیر شرح نا خواندگی میں اضافہ:سروے

Monday, March 1st, 2010
وادی کشمیر میں ہر گذرتے سال کے ساتھ خواند گی کی شرح گھٹتی جا رہی ہے۔ ناخواندگی کی بڑھتی شرح کیلئے ذمہ دار کون، سرکار، علحیدگی پسند یا غربت ؟ عوامی حلقوں کا سوال۔ واضح رہے شرح خواندگی کے حوالے سے پورے ملک میں وادی کشمیر کا شمار پہلے 10 خطوں میں آٹھویں نمبر پر کیا جاتا تھا۔ تاہم حالیہ سروے کے مطابق وادی کشمیر کا شمار پہلے 25 خطوںمیں کہیں بھی نظر نہیں آرہا ہے۔ اس حوالے سے دستیاب تفصیلات کے مطابق وادی کشمیر میں ہر تین افراد میں سے ایک فرد ناخواندہ ہے اور پورے کشمیر میں مجموعی طور پر ناخواندہ افراد کی تعداد 32 لاکھ سے زیادہ ہے اُدھر جموں و کشمیر میں اب بھی 5412 سکول کرایہ کی عمارتوں میں قائم ہیں گوکہ ریاست میں تعلیم کو عام بنانے اور ان پڑھ لوگوں کی تعداد میں کمی لانے کی کوششوں میں سرکاری اعداد وشمار کافی اطمینان بخش ہیں، لیکن حقیقت میں یہاں ناخواندگی کی شرح 34 اعشاریہ 33 فیصد ہے۔ بارہمولہ ضلع ناخواندگی کی شرح میں سر فہرست ہے ۔اطلاعات کے مطابق ڈائیریکٹوریٹ اینڈ اسٹیٹکس(DES) نے حال ہی میں کشمیر میں اس حوالے سے سروے رپورٹ تیار کی ہے، رپورٹ کے مطابق سروے کے دائیرے میں ریاست جموں وکشمیر میں 7 سال سے اُوپر کے تقریباً 94 لاکھ افراد کو لایا گیا۔ ان میں 62 لاکھ افراد کو ناخواندہ پایا گیا۔ جبکہ تعلیم یافتہ افراد کی تعداد 32 لاکھ 22 ہزار پائی گئی۔ عام شہریوں کا خیال یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں تعلیمی نظام انتہائی ابتر ہے اور اس بدانتظامی کا اثر یہاں کے لاکھوں نوجوانوں کے مُستقبل کو تاریک بنا رہا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں طوائف الملوکی کااندازہ اس بات سے لگایا جارہا ہے کہ سن2007 میں 23 سرکاری سکولوں میں دسویں کلاس کا نتیجہ صفر فیصدی رہا۔ جبکہ سن 2008 میں 49 سرکاری سکولوں میں دسویں جماعت کا کوئی بھی اُمیدوار کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔ اس کے علاوہ سن 2009 میں بھی 34 سکولوں کی کارکردگی انتہائی مایوس کُن رہی اور ان سکولوں کا کوئی بھی اُمیدوار دسویںجماعت کے امتحان میں کامیاب قرار نہیں دیا گیا ۔ اس صورتحال کا ایک تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ ان سکولوں میں شرمناک کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی سکول انتظامیہ اور درسی عملہ سے کوئی باز پرُس نہیں کی گئی بلکہ اُنھیں معمول کے مطابق ترقیوں سے نوازا گیا حالانکہ وزیر تعلیم پیر محمد سعید نے کئی بار یہ اعلان کیا کہ اساتذہ کو اُن کی کارکردگی کی بنیاد پر بھی ترقیوں سے نوازا جائے گا لیکن وزیر تعلیم مصلحتوں میں اُلجھ کر اس اعلان پر عملدرامد نہ کرسکے۔ اس طرح اساتذہ کی ایک بڑی تعداد مجرمانہ فرض ناشناس کی مرتکب ہورہی
ہے۔ سکولوں کی ناقص کارکردگی کے سلسلے میں محکمہ تعلیم کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ امتحانات کے نتائیج کا اعلان کرنے والے بورڈوں کی غیر اطمینان بخش کارکردگی بھی طلباء کے مسُتقبل کو تاریکیوں میں دھکیل رہی ہے ایک طرف جہاں مختلف کلاسوں کے امتحانات وقت پر نہیںلئے جاتے وہاں نتائیج میں بھی مہینوں کی تاخیر ہوجاتی ہے۔ ریاست جموں وکشمیر میں سروسکھشا ابھیان کے تحت ہزاروں کی تعدادمیں سکول اور کالج کھولے گئے لیکن ان میں 25 فیصد اداروں کے پاس اپنی کوئی عمارت ہے ہی نہیں، اس طرح اب ایسے سکولوں کی تعداد 5412 ہے جو کہ کرایہ کی عمارتوں میں قائیم ہیں۔ ریاست خصوصاً وادی کشمیر میں تعلیمی نظام کی بدحالی کا براہ راست منفی اثر یہاں کے تعلیمی رحجان پر پڑ رہا ہے جس سے ناخواندگی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔عوامی حلقے پریشان ہیں کہ ریاست بالخصوص وادی کشمیر میں تعلیمی پسماندگی کیلئے سرکار ذمہ دار ہے، یا علحیدگی پسند رہنما ۔مجموعی طور شرح تعلیم سے متعلق اعداد وشمار چونکا دینے والے ہیں اور ہر ذی ہوش کا فکرمند ہونا لازمی ہے۔

No comments:

Post a Comment