Friday, February 12, 2010

URDU NEWS

دریاسے نایاب مورتی برآمد
سرینگر// بارہمولہ میں آج ماہی گےروں نے مچھلیاں پکڑنے کے دوران درےائے جہلم سے سنگ مرمرکی قدیم اور نایاب مورتی بر آمد کی جس کے بعد تحصیلدار بارہمولہ نے مورتی کو اپنی تحویل میں لے لیا ۔ذرائع کے مطابق کچھ ماہی گےر آج صبح معمول کے مطابق خواجہ باغ اور بارہمولہ کے درمیان محکمہ بجلی کے دفتر کے متصل درےائے جہلم میں مچھلیاں پکڑنے میں مصروف تھے ۔اس موقعہ پر ماہی گےروں نے مچھلیوں کیلئے اپنا جال پھینکا اورکچھ دےر بعد جب جال کو کھینچنے کی کوشش کی گئی توماہی گےروں نے زبردست کائوشوں کے با وجود شدید کھینچائو محسوس کیا ۔اسی دوران بے حد جدوجہد کے بعدوہ جال کو کھینچ کرسمیٹنے میں کامیاب ہوئے تاہم ماہی گےر یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ جال میں سفےد سنگ مرمر سے بنی ایک خوبصورت مورتی موجود ہے ۔چنانچہ اس واقعہ کے سلسلے میں فوری طور پر تحصیل انتظامیہ کو آگاہ کیا گےا اور تحصیلدار بارہمولہ سید محمد یوسف از خود ماہی گےروں کے پاس گئے اور مورتی کو اپنی تحویل میں لے لیا ۔ذرائع کے مطابق یہ مورتی ہندوئوں کے اُس اوتار کی ہے جسے ’’شیرا والی ماں‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ کشمیری پنڈت اسے ’’شارکا‘‘کے نام سے پکارتے ہیں ۔مورتی میں شیر کی شکل اور اس پر سوار 8بازوئوں والی ’’شیرا والی ماں‘‘کو منفرد اور خوبصورت انداز میں تراشا گےا ہے ۔تحصیلدار بارہمولہ سید محمد یوسف نے بتاےا کہ 2فٹانچ اونچی اور ایک فٹ0انچ چوڑھی یہ مورتی شکل سے ہی نایاب نظر آتی ہے اور ابتدائی اندازے کے مطابق یہ مورتی قدیم زمانے کی ہے ۔تاہم انہوں نے کہا کہ مورتی کے 8بازوئوں میں سے ایک ہاتھ ٹوٹا ہوا ہے ۔انہوں نے مزید بتاےا کہ مورتی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے انہوں نے مین چوک بارہمولہ کے مندر میں مقیم مقامی پنڈتوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی تاہم وہ شیو راتری کے تہوار کے سلسلے میں جموں گئے ہوئے ہیں ۔تحصیلدار بارہمولہ کے مطابق انہوں نے مورتی کو سیل بند کر کے پولیس اسٹےشن بارہمولہ کی تحویل میں دے دےا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ اس سلسلے میں محکمہ آثار قدیمہ کو بھی آگاہ کیا گےا ہے جو مورتی کی مزید چھان بےن اور تشخیص کیلئے مورتی کو اپنے تحویل میں لے گا۔




مقررہ وقت کے اندر سکیم مرتب ہوگی
سرینگر//وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ مرکزی سرکار کی جانب سے پاکستانی کشمیر میں موجود جنگجوﺅں کومعافی دیناریاستی سرکارکی پالیسی پرمہر ثبت کرنے کے مترادف ہے۔کیونکہ ریاستی سرکارکا یہ موقف ہے کہ جوواپس آکر پرامن زندگی گذارنا چاہتے ہیں اُنہیں موقعہ دیا جائے۔ وزیر اعلیٰ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ مرکز کی طرف سے سرحد پار سے جنگجوﺅں کی محفوظ راہداری سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ مرکز امن عمل کوآگے لے جانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اقدام سے ریاستی سرکار ان نوجوانوں کیلئے ایک سکیم مرتب کرے گی ۔تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ ایک مقررہ وقت کے اندر واپس آسکیں۔انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم کے اس بیان کو خوش آئند قرار دیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کوئی بھی بھارتی جوسرحد پار کرکے پاکستانی کشمیر میں ہے ،واپسی کا ارادہ رکھتا ہو اسکا خیرمقدم کیا جائے گا ۔عمر عبداللہ نے کہا کہ وہ 2006ءسے ہی اس بات پر زور دے رہے تھے کہ پاکستانی کشمیر میں موجود کشمیری نوجوانوں کو محفوظ راہداری فراہم کی جائے ۔انہوں نے کہا ”جب وہ پہلی مرتبہ پاکستان گیااور وہاںسابق صدر پرویز مشرف سے ملاتو اس وقت کئی کشمیری نوجوان میرے پاس آئے اور اس بات کی خواہش کی ظاہر کی کہ وہ واپس آنا چاہتے ہیں اور جب میں واپس آیا تو میں اس معاملے کو مختلف فورموں میں اُٹھایا۔وزیر علیٰ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے اسمبلی میں پرائیویٹ ممبر بل جوسی پی آئی ایم کے محمدیوسف تاریگامی کی طرف سے لایاگیا تھا،کی حمایت کی تاکہ سرحدپار نوجوانوں کی واپسی ممکن ہو۔تاہم پی ڈی پی نے بل کی مخالفت کی جسکی وجہ سے بل پاس نہ ہوسکا ۔اُن کا کہنا تھاکہ اگر پی ڈی پی نے مخالفت نہ کی ہوتی تو یہ عمل کب کا شروع ہو چکا ہوتا ۔عمر عبداللہ نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کی کرسی سنبھالنے کے ساتھ ہی انہوں نے اس معاملے کووزیر اعظم منموہن سنگھ ، وزیر داخلہ پی چدمبرم اور وزیر دفاع اے کے انٹونی کی نوٹس میں لایااور مجھے بہت سارے لوگوں کو اس تجویز پر قائل کرنا پڑاکہ اگرایسا کوئی اقدام اُٹھایاگیا تو یہ سب سے بڑا اعتماد سازی کا اقدام ہوگا۔اُن کا کہنا تھا کہ بہت سارے کنبے اپنے عزیز و اقارب کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں اور اس وقت تک اُن کے پاس ایسی کوئی امید نہیں ہے لیکن اس اقدام سے یقینا اُن کی امیدیں بر آنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔

سرحدپار مقیم کشمیری نوجوانوں کی واپسی
مسئلہ انسانیت کاکریڈٹ گیم کھیلنے کا نہیں
سرینگر//سرحدر پار مقیم کشمیری نوجوانوں کی عام معافی اور ان کی بازآباد کاری کے سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں سے تعاون طلب کرتے ہوئے حکومت نے کہا کہ اس پر ”کریڈٹ گیم“ کھیلنے کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں کو اس کے حق میں آگے آنا چاہئے۔جمعہ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سیاحت اور شہری ترقی کے وزیر ناصر اسلم وانی نے کہاکہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی طرف سے سر حد پار گئے نوجوانوں اور کئی خاندانوں کی کشمیر واپسی اور ان کی با ز آباد کاری پر ایک بحث چھڑ گئی ہے اور ہم اس سلسلے میں حکومت کا نقطہ نظر واضح کرنا چاہتے ہیں انہوں نے کہا ”حکومت کی پالیسی ہے کہ جوناگزیر حالات یا کسی بھی وجہ سے وادی چھوڑ کر چلے گئے ،اُن لوگوں کو واپس لاکران کی با ز آباد کاری کو یقینی بنایا جا ئے اور اسی پالیسی کے ایک حصہ کے تحت ہم 1990سے سر حدپار گئے نوجوانوں اورمتعدد کنبوں کو واپس لا کر ان کی باز آباد کاری کر نا چاہتے ہیں“ ۔پر یس کانفرنس میں صحت کے وزیر مملکت جاوید احمد ڈار بھی موجود تھے۔ ناصر اسلم وانی نے مزید بتا یا ”عمر عبداللہ نے 2005ءمیں نیشنل کانفرنس صدر کی حےثےت سے اپنے دورہ پاکستان کے دوران یہ مسئلہ پاکستانی حکومت کے ساتھ اٹھاےا تھا “۔ انہوں نے کہا”یہ مسئلہ ان گھرانوں کا ہے جو ٹوٹ کر تقسیم ہو گئے ہیں ،جنکے لخت جگر سالہاسال سے سرحد کے دوسری طرف رہ رہے ہیں ،یہ مسئلہ ان نوجوانوں کے مستقبل کا ہے جو کئی وجوہات کی بنا ءپر سرحد پار چلے گئے “۔شہری ترقی کے وزیر نے کہا ” 1990ءمیں نا مساعد حالات کے باعث دوردراز سرحدی علاقوں کے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے اور اس صورتحال سے کیرن کا علاقہ سب سے زےادہ متاثر ہوا جہاں دو تہائی آبادی کنٹرول لائن کے اُس پار چلی گئی اور ہم انسانی بنیادوں پر انہیں واپس لاکر ان کی با ز آباد کاری چاہتے ہیں “۔ ناصر اسلم نے کہا کہ حکومت نے جو پالیسی مرتب کی ہے وہ صرف1990ءکے بعد سرحدپار جانے والے لوگوں کی واپسی تک محدود ہے اور 1947ءکے مہاجرین کی واپسی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور جب موجودہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا عمل شروع ہو گا تو اس بارے میں ایک الگ حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ یہ کوئی سرنڈر نہیں بلکہ با زآبادکاری پالیسی ہے اور ہم ان لوگو ں کی بازآبادکاری چاہتے ہیں جو واپس آکر پرامن زندگی گزارنا چاہتے ہیں ۔ناصر نے کہا”کچھ سیاسی جماعتیں اس مسئلہ پر سیاست کر نا چاہتی ہیں مگر ہمیں کر یڈٹ گیم کھیلنے کی بجائے سرکار کو تعاون دینا چاہئے “۔پی ڈی پی کی طرف اشارہ کر تے ہوئے ناصر اسلم نے کہا کہ جب اعتماد سازی کے ایک قدم کے طور پر حکومت ہند و پاک نے سرینگرمظفرآباد شاہراہ بس سروس شروع کر نےکا فیصلہ کیا تو اس جماعت نے اس کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کی مگر آج ہمیں کریڈیٹ لینے کی بجائے اس مسئلہ کو انسانیت کی عینک سے دیکھنا چاہئے۔انہوں نے پی ڈی پی پر الزام عائد کیا کہ اس سلسلے میں جب اسمبلی میں ایک قرار دادلائی گئی لیکن اُس جماعت کے ارکان نے اس کی مخالفت کی اور آج سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرحدپار مقیم کشمیریوںکی تعداد کے بارے میں ابھی تک اعداد و شمار جمع نہیں کئے گئے ہیں تاہم ناصر نے کہا کہ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں پاکستان کا سب سے اہم رول ہے اور اس سلسلے میں نئی دلی کو اسلام آباد کے ساتھ معنی خیز بار چیت کرنی چاہئے۔
چودا سال سے محروس نوجوان کی جان کو خطرہ
سرینگر// ایسوسی ایشن آف فیملیز آف کشمیری پرزنرس نے مسلسل گرفتاریوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ایک بیان میں تنظیم کی چیئرپرسن انجم زمرد حبیب نے کہا ہے کہ قیدیوں کے حقوق کی پامالیاں اور بلاجواز گرفتاریاں ہر گز برداشت نہیں کی جائے گی ۔انہوںنے کہا کہ نظربندوںکے افراد خانہ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے عزیز کس جیل خانہ میں اور کس حال میں ہیں۔ زمرود حبیب نے کہاکہ 14برسوں سے تہاڑ جیل میں نظربند جاوید احمدخان کی بگڑتی صبح پر ان کے افراد خانہ بے حد پریشانہیںاور مسلسل اسیری کی وجہ سے وہ ذہنی بیماری میں مبتلا ہوگیا ہے۔ والدین کا کہنا ہے کہ ملاقات کے دوران انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کی 27سالہ جوان 50سال کا ضعیف لگ رہا تھا۔ زمرود حبیب نے سٹیٹ ہیومن رائٹس چیئرمین سے اس بارے میں مداخلت کی اپیل کی ہے۔


No comments:

Post a Comment