Wednesday, July 21, 2010

ادھورے خواب

رومل // کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ صرف ایک ماہ قبل بنر ورمل کی رہنے والی مسعودہ کو جس ارمان سے والدین اور رشتہ داروں نے دلہن کے لباس میں گھر سے رخصت کیا تھا اسی مسعودہ کا دلہا فیاض احمد اسے عمر بھر جاگنے کی سزا دےکر خودسو جائے گا۔ ابھی لوگ اور رشتہ دار مسعودہ اور فیاض احمد کو شادی کی مبارک دینے میں ہی مصروف تھے کہ فورسز اہلکاروں نے سوموار کو احتجاج کر رہے مظاہروں پر گولیاں چلا ئیں جس کی زد میںآکر26سالہ فیاض احمد جان بحق ہوا۔اس روز فیاض احمد معمول کے مطابق اپنے کام سے گھر لوٹ رہا تھا کہ پرامن مظاہرین فیضان احمد کی لاش لے کر ضلع ترقیاتی کمشنرکے دفتر کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے اور ااہلکاروں نے جلوس پر گولیاں چلائی جس کے نتیجے میں فیاض کی موت واقعہ ہو ئی ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ فیضان احمد تین روز قبل دریائے جہلم میں پولیس سے بچنے کےلئے کودگیا تھا اور جب بسیار تلاش کے بعدنیوی کے غوطہ خوروں کی فیضان کی لاش برآمد کی تومقامی سراپا احتجاج بن گئی ۔فیاض احمد کی شادی محض ایک ماہ قبل ہوئی تھی اور اب مختلف رشتہ داروں کی دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو نے ہی والا تھا کہ اُنہیں ہلاک کیاگیا۔26سالہ دُلہا کچھ عرصہ قبل ہی مزدوری کرنے لگا تھا حالانکہ وہ اس سے قبل ایک ہوٹل میں بطور ویٹر کام کر رہا تھا۔ سوموار کی صبح جب فیاض اپنے گھر سے نکلا تو اس نے اپنے بیمار سسرسے کہا کہ جہاں وہ پہلے کام کرتا تھا وہاں اُس کی کچھ رقم ہے اور وہاں سے یہ رقم لانے کےلئے جارہا ہے تاکہ سرینگر میں کسی ڈاکٹر کے پاس تمہیں لیا جائے تاہم یہ وعدہ وہ پورا نہ کرسکا۔اُس کے سسر رحمت اللہ شاہ نے بتایا کہ فیاض نے مجھے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے سرینگر کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس لے جائے گا اور پرانے مالک کے پاس اس کے تین ہزار روپے تھے لیکن اُسے یہ نہیں پتہ تھا کہ انہی پیسوں سے اُس کا کفن خریدا جائے گا۔رحمت اللہ کا پورا کنبہ فیاض کی جدائی پر سکتے میں آچکا ہے۔ رحمت اللہ کا اپنا کوئی بیٹا نہیں اور اس نے فیاض کوگھرجمائی بنایا تھااور فیاض نے اپنے سسرسے ایسا رویہ اختیار کیا تھا جیسے وہ اس کا اپنا بیٹا تھا۔ رحمت اللہ کا کہنا ہے کہ فیاض طبیعت کا نرم تھا اور مذہب کےساتھ اس کی گہری وابستگی تھی تاہم موت کے ظالم پنجوں نے اُسے ہم سے چھین لیا۔فیاض کی والدہ اس قدر سکتے میں آگئی ہے کہ وہ کوئی بھی لفظ بول نہیں سکتی۔ کیونکہ گذشتہ چند برسوں کے دوران یہ اس کے لئے یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس کا ایک اور بیٹا دریائے جہلم میں نہانے کے دوران ڈوب گیا تھا اور اب اس کا دوسرا بیٹا بھی اس سے چھن گیا ہے۔ اگرچہ فیاض کنڈی ورمل کے دنموہ علاقے سے تعلق رکھتا تھا لیکن اس کی موت کی جگہ ورمل متعین ہوئی تھی اور آخری سفر بنر میں ختم ہوا۔

No comments:

Post a Comment