Sunday, March 7, 2010

جموں و کشمیر میں بیس برسوں میں12ہزار دھماکے،1754ہلاکتیں

سرینگر//ریاست جموں و کشمیر میں گذشتہ20برسوں کے پر تشدد دور میں قرےب12ہزار بم دھماکے ہوئے ہیں جن میں 1754 افراد ہلاک اور15ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں ۔سال 2009ءمیں پولیس اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کے دوران 245جنگجو ہلاک ہو گئے ۔اعداد و شمار کے مطابق رےاست میں 1990ءکے اوائل سے شروع ہونے والی مسلح جدوجہد کے دوران 20سال کے عرصے میں مجموعی طور پر 11876دھماکے ہوئے جن میں 5682 دھماکے بارودی سرنگ اور6194دھماکے گرینیڈ وں کے ذرےعے کئے گئے ۔ان دھماکوں میں1754افراد کی ہلاکت کے علاوہ 15589افراد زخمی ہوئے جن میں سے کئی لوگ جسمانی اعضاءسے محروم ہو گئے ۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سب سے زےادہ دھماکے1522دھماکے 1990میں ہوئے جبکہ1993میں 1005دھماکے کئے گئے ۔ بارودی سرنگ اور گرینیڈ دھماکوں میں سب سے زےادہ ہلاکتےں 1995ءمیں ہوئیں ، اس سال 945 دھماکوں میں 153افراد ہلاک جبکہ 1021افراد زخمی ہوئے۔ 2001میں مجموعی طور پر775دھماکے ہوئے جسکے نتےجے میں 133 افراد ہلاک اور1443مضروب ہوئے گذشتہ2برسوں کے دوران گرینیڈ دھماکوں میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی ۔ 2008 اور2009میں بالترتےب 170 اور 79 گرینیڈدھماکے ہوئے جن میں مجموعی طور پر 47افراد ہلاک اور208افراد زخمی ہوئے ۔ دریں اثناءراجیہ سبھا میں گذشتہ روز سال2008اور2009میں پیش آئے پرتشدد واقعات کے بارے میں اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتاےا گےا کہ 2009میں پولیس اور سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں میں کل ملا کر 225جنگجوﺅں کو ہلاک کر دیا گےا ۔مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ اجے مکن نے ایوان کو بتاےا کہ 2008ءمیں در اندازی کی342جبکہ2009میں 485کوششیں کی گئیں ۔تاہم انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں مجموعی طور پر تشدد کی وارداتوں میں کمی ریکارڈ کی گئی جو 2008ءمیں 780سے 2009میں 499تک پہنچ گئیںجبکہ سال2010میں 21فروری تک 27جنگجوﺅں کو ہلاک کر دیا گےا ۔انہوں نے کہا کہ 2009کے دوران درندازی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس عرصے میں اس طرح کی485کوششوں کے دوران 133جنگجو ریاست میں داخل ہوئے۔ اعداد وشمار کے مطابق 2008میں مجموعی طور پر دراندازی کی 342وارداتوں میں57جنگجو جموں کشمیر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے جس کی رو سے 2009میں ان واقعات میں143وارداتوںکا اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور 2008کے مقابلے میں56زیادہ جنگجو دراندازی کرنے میں کامیاب ہوئے۔

No comments:

Post a Comment