Friday, March 26, 2010

دریائے جہلم کی بقاء پر خطرے کے بادل منڈلارہے ہیں

پانی کا اہم وسیلہ تیزی کے ساتھ سکڑتا جارہا ہے،ماہرین کو خدشات لاحق
سیرنگر:ماحولیات کے لئے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ زبرون پہاڑی سلسلے میں واقع 'کولاہوئی گلیشر' گذشتہ40برس کے عرصے میں15سے18فیصدتک سکڑ گیاہے اوریہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔یہ گلیشربھارت اور پاکستان میں مقیم کروڑوں لوگوں کے لئے پانی کا ایک اہم وسیلہ ہے اوراسی سے دریائے جہلم میں پانی کی بیشتر مقدار جمع ہوتی ہے۔ذرائع کے مطابق دلی میں مقیم عالمی ماحولیاتی تنظیم ''انرجی اینڈ ریسورس انسٹی چیوٹ'' نے حال ہی میں واشنگٹن میں جاری کی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے سبب جنوبی کشمیر سے بہنے والے دریائے لدر کے پانی کا بنیادی وسیلہ ''کولاہوئی گلیشر'' انتہائی تیزی کے ساتھ پگھل رہا ہے ۔رپورٹ کے مطابق مغربی ہمالیائی خطے میں واقع اس گلیشر کے مسلسل سکڑنے سے مستقبل میں پانی کی دستیابی کے حوالے سے سنگین صورتحال پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ جموں کشمیر کے ساتھ ساتھ بھارت اورپاکستان کے متعدد علاقوں میں رہنے والے کروڑوں لوگ پانی کے حوالے سے اسی وسیلے پر منحصر ہیں۔یہ خطہ ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے گلیشروں کا مسکن ہے اور رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ماہرین ماحولیات ان گلیشروں کے بھی تیزی کے ساتھ سکڑنے کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں۔اس سلسلے میں مذکورہ ماحولیاتی تنظیم کی طرف سے باضابطہ طور تحقیق عمل میں لائی گئی ہے جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گذشتہ چار دہائیوں کے عرصے میں ''کولا ہوئی گلیشر''کا15سے18فیصد حصہ پگھل گیا ہے اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے یہ عمل جاری ہے۔''انرجی اینڈ ریسورس انسٹی چیوٹ''کے ماہرین نے سال2009میں گلیشر کے بارے میں تازہ اعدادوشمار جمع کرنے کے لئے ایک سروے عمل میں لایا جس کے لئے مقامی لوگوں پر مشتمل ایک ٹیم کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ گلیشر ہر سال قریب10فٹ(تین میٹر) سکڑ جاتا ہے اور اس رفتار سے گذشتہ40برسوں میں اس کا حجم 15سے18فیصد کم ہوگیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ۔ماہرین کے مطابق 1976میںیہ گلیشر13.87مربع کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا جو اب سکڑ کر 11.24مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ذرائع کے مطابق تنظیم کے ماہرین نے گلیشر کا دورہ کرنے کے بعد اسکی پیمائش عمل میں لائی جس کے دوران یخ میں جگہ جگہ سوراخ کرکے اعدادوشمار جمع کئے گئے۔مقامی لوگوں کی ٹیم کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ ہر سال گرمیاں ختم ہوتے ہی اسی طرح سے گلیشر کی پیمائش عمل میں لائیںتاکہ آئندہ متواتر طور اس کے بارے میں اعدادوشمار جمع کرنے کاسلسلہ جاری رکھا جائے۔انرجی اینڈ ریسورس انسٹی چیوٹ'' سے وابستہ سرکردہ ماہر شریش تیال کے مطابق کولاہوئی گلیشر پر کی گئی سروے کے بین الاقوامی سطح پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیںکیونکہ ابھی تک مغربی ہمالیائی گلیشروں کے پگھلنے سے متعلق قابل اعتبار اعدادوشمار دستیاب نہیں تھے۔انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ گلیشر دریائے لدر کے لئے پانی کا بنیادی وسیلہ ہے اور گلیشر کے پگھلنے سے دریا میں جمع ہونے والی پانی کی مقدار کا پتہ لگانا بھی ضروری ہے جس کے لئے ایک 'مانیٹرنگ سٹیشن' کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو ہر روز لدر میں پانی کے بہائو کے بارے میں اعدادوشمار جمع کرتا ہے۔قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے بھی بین الاقوامی ماہرین ماحولیات نے خبر دار کیا ہے کہ درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے سبب جموں کشمیر میں واقع گلیشر دنیا کے دیگر حصوں کے مقابلے میں انتہائی تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں جس کے نتیجے میں آنے والے وقت میں بھارت ،پاکستان،چین،بنگلہ دیش اور برما میں پانی کی شدید قلت کے خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس صورتحال کے نتیجے میں مستقبل میں ریاست میں بھی پانی کی زبردست کمی کا مسئلہ درپیش ہوسکتا ہے۔کشمیر میڈیا نیٹ ورک کے مطابق اس سلسلے میں امریکہ،برطانیہ،آسٹریلیا اور نیپال سے تعلق رکھنے والے ماہرین ماحولیات کے علاوہ موسمیات اورماحولیات سے متعلق ریاست کے ماہرین نے ریاست میں واقع گلیشروں کی موجودہ صورتحال کے بارے میں اعدادوشمار بھی پیش کئے ہیں جن کے مطابق لداخ خطے کے کرگل ضلع میں72مربع کلومیٹررقبہ پر مشتمل'سُرو بسین 'نامی علاقہ میںکم و بیش300 گلیشر ہیں جن کا16فیصد حصہ پگھل گیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاست کے گلیشرسالانہ0.8مربع کلومیٹر کی شرح سے پگھل رہے ہیں جس کی بنیادی وجوہات درجہ حرارت میں اضافہ اور بارشوں کا کم ہونا ہیں۔بین الاقوامی ماہرین ماحولیات نے کہا ہے کہ زبرون اور سُرو بسین میں واقع گلیشر وں کے دو سسٹم وادی میں پینے کے پانی اور آبپاشی کے بنیادی وسائل ہیں۔کولا ہائی گلیشر دریائے جہلم کے لئے پانی کا بنیادی وسیلہ ہے جبکہ سُرو گلیشرسے نہ صرف دریائے سُرو بلکہ کرگل اور زنسکار وادیوںکو بھی پانی میسر ہوتا ہے۔

No comments:

Post a Comment