Sunday, March 21, 2010

پار مقیم نوجوانوں کی واپسی ،پاکستان کی آمادگی شرط

ماہ مئی میں نئی دلی کا منصوبہ منظر عام پر آئے گا
جموں سرحد پار مقیم نوجوانوں کی واپسی اور باز آباد کاری سے متعلق منصوبے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے اور اس کی تفصیلات مئی کے مہینے میں منظر عام پر آنے کا امکان ہے ۔تاہم اس سلسلے میں حکومت پاکستان کی آمادگی کے بعد ہی قریب 3000نوجوانوں کی گھر واپسی کی راہ ہموار ہو گی ۔اس دوران سیکورٹی ایجنسیوں نے پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں مقیم کشمیری نوجوانوں کی واپسی کیلئے 5مراحل پر مشتمل طریقہ کاروضح کیا ہے جس کے تحت واپسی کے خواہشمند نوجوانوں کے والدین کو ریاستی پولیس سے رابطہ قائم کرنا ہو گا جس کے بعد سرحد پار موجود نوجوانوں کے بارے میں چھان بین عمل میں لائی جائے گی اور ان کے خلاف درج کیسوں کا جائزہ لیا جائے گا ۔باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ریاستی حکومت مظفر آباد اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے دیگر علاقوں میں مقیم نوجوانوں کی گھر واپسی اور باز آبادکاری کی پالیسی مرتب کرنے میں مصروف ہے اور اس حوالے سے محکمہ داخلہ کے سینئر افسران کے ساتھ ساتھ قانونی ماہرین کی مدد بھی حاصل کی جا رہی ہے ۔ان نوجوانوں کی واپسی سے متعلق پالیسی کا اعلان وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے فروری کے مہینے میں کیا تھا جس کی مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے اعلاناً تائید کی تھی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ریاستی حکومت کے ذریعے مذکورہ پالیسی کے خد و خال مرتب کئے جا رہے ہیں جس کے بعد یہ ایک دستاویز کی صورت میں باضابطہ طور پر مرکزی حکومت کو پیش کیا جائے گا۔ذرائع نے مزید بتایا کہ سرحد پار نوجوانون کی واپسی اور باز آباد کاری کا حتمی خاکہ ریاستی اور مرکزی حکومتوں کے درمیا ن باضابطہ صلاح مشورے کے بعد ترتیب دیا جائے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ پالیسی کی تفصیلات رواں سال کے ماہ مئی میں منظر عام لائی جائیں گی ۔البتہ ذرائع کا کہنا ہے کہ فل پروف پالیسی مرتب کرنے سے قبل اس ضمن میں تمام پہلوئوں کو مد نظر رکھا جائے گا جس کے بعد ہی اس کی تفصیلات کو منظر عام پر لایا جائے گا۔ذرائع نے مزید بتایا کہ سرحدس پار مقیم لگ بھگ3000نوجوانوں کی واپسی صرف تب ہی ممکن ہو پائے گی جب اس میں حکومت پاکستان کی رضا مندی شامل ہو گی ۔اس سلسلے میں پالیسی کا حتمی دستاویز مرتب ہونے کے بعد یہ معاملہ پاکستان اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے حکام کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور ان کی منظوری کے بعد ہی اسے عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔ کشمیر میڈیا نیٹ ورک کے مطابق اس سلسلے میں وزارت داخلہ کے معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے مختلف علاقوں میں مقیم ایسے کشمیری نوجوانوں کی گھر واپسی کی راہ ہموار کرنے کیلئے تکنیکی پہلوئوں کو حتمی شکل دینے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے جو گھر واپس لوٹ کر تشدد ترک کرتے ہوئے پر امن زندگی گذارنا چاہتے ہیں ۔ذرائع کے مطابق اس اہم معاملے پر مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے ساتھ مسلسل کئی ماہ تک قریبی تال میل رکھتے ہوئے اس منصوبے کو منظوری دی ہے ۔دونوں لیڈران نے اس ضمن میں اعلیٰ سطح پر صلاح مشورے کئے ہیں جن کی روشنی میں گذشتہ دنوں وزیر داخلہ نے وزیر اعلیٰ کی تجویز کی تائید و حمایت کی ۔معلوم ہوا ہے کہ مشاور ت کے دوران وزیر اعلیٰ اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ سرحد پار مقیم نوجوانوں کیلئے عام معافی کا اعلان اعتماد سازی کا ایک اہم اور بڑا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ذرائع نے مزید بتایا کہ 5سال قبل بھی اس طرح کے ایک منصوبے پر غور کیا گیا تھا لیکن اسے عملی جامہ نہیں پہنایا گیا تاہم انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے ان اطلاعات کے بعد کہ سرحد پار متعدد کشمیری نوجوان اپنے گھروں کو لوٹنا چاہتے ہیں ، مرکزی حکومت نے اس منصوبے کو ہری جھنڈی دکھائی ہے ۔ذرائع نے مزید بتایا کہ خفیہ اداروں کی طرف سے وزارت داخلہ کو فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق لائن آف کنٹرول کے اُس پار کشمیری نوجوانوں کی خاصی تعداد گھر واپس لوٹنے کی متمنی ہے اور اس سلسلے میں کئی نوجوان بنگلہ دیش اور نیپال کی سرحدوں کے اُس پار انتظار کر رہے ہیں ۔مانا جا رہا ہے کہ عام معافی کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے سے 2000سے زائد نوجوانوں کی واپسی ممکن ہو سکتی ہے جو1990ء میں ہتھیاروں کی تربیت حاصل کرنے کی غرض سے سرحد پار گئے تھے اور اب بندوق کے بغیر واپس لوٹنا چاہتے ہیں ۔ذرائع کے مطابق کشمیری نوجوانوں کی گھر واپسی کے بارے میں سیکورٹی ایجنسیوں نے اعلیٰ سطح پر صلاح مشورہ کرنے کے بعد جو طریقہ کار وضع کیا ہے ،اس کے تحت سرحد پار مقیم نوجوانوں کے ماضی کی پولیس کے ہاتھوں چھان بین کے بعد ہی انہیں ہری جھنڈی دکھائی جائے گی۔معلوم ہوا ہے کہ نوجوانوں کے خلاف وادی کے مختلف پولیس اسٹیشنوں مین میں درج مجرمانہ سرگرمیوں سے متعلق کیس فوری طور پر واپس نہیں لئے جائیں گے اور نہ ہی انہیں سرکار کی طرف سے باز آباد کاری کیلئے نقد رقم دی جائے گی بلکہ انہیں حکومت کی طرف سے مختلف تکنیکی زمروں میں مختصر مدت کی تربیت فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنا روزگار خود کما سکیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ان نوجوانوں کے خلاف غیر قانونی طور لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے علاوہ دیگر کیس بر قرار رہیں گے تاہم حکومت اس ضمن میں نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے اُن کے کیسوں کا از سر نو جائزہ لے گی جس کے دوران ان کے چال چلن کو مد نظر رکھا جائے گا ۔کشمیر میڈیا نیٹ ورک ذرائع کے مطابق جو لوگ اپنے بچوں کو گھر واپس لانا چاہتے ہوں ،انہیں جموں کشمیر پولیس کے سی آئی ڈی شعبے کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل سے رابطہ قائم کرنا ہو گا جس کے بعد اس حوالے سے دستاویزات تیار کرنے کا عمل شروع ہو گا۔بعد میں نوجوانوں کے خلاف درج کیسوں کے ساتھ ساتھ ان کے ماضی کے بارے میں مکمل چھان بین عمل میں لائی جائے گی اور مختلف سیکورٹی ایجنسیوں کی منظوری کے بعد ہی ان کی واپسی ممکن ہو پائے گی۔ذرائع کے مطابق اس عمل کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھتے ہوئے باریک بینی سے ویریفکیشن کی جائے گی کہ گھر واپسی کی آڑ میں کوئی سرگرم جنگجو وادی نہ آنے پائے ۔معلوم ہوا ہے کہ ان نوجوانوں کی شناخت ،ڈی بریفنگ ،باز آباد کاری اور یہاں کے سماج میں دوبارہ شمولیت کا عمل مکمل کرنے کیلئے کئی مہینوںکا وقت درکار ہو گا ۔ذرائع کے مطابق سرحد پار مقیم نوجوانوں کی انسانی بنیادوں پر واپسی اور باز آباد کاری کی تجاویز پر مئی 2006ء میں اُس وقت غور کیا گیا تھا جب وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے سرینگر میں دوسری گول میز کانفرنس کی صدارت کی تھی لیکن اس وقت یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا۔

No comments:

Post a Comment