Sunday, March 14, 2010

کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا تسلسل، امریکہ کی سالانہ رپوٹ منظر عام پر

سرینگر// امریکہ نے انسانی حقوق سے متعلق سال2009کی سالانہ رپورٹ منظر عام پر لائی ہے جس میں کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے ایک درجن سے زائد واقعات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن میں شوپیان سانحہ،بومئی ہلاکت،حراستی گمشدگیوں اورعلیحدگی پسندوں کی نظر بندی بھی شامل ہے۔رپورٹ میں کشمیر میں تعینات پولیس اور فورسز اداروں کے ساتھ ساتھ جنگجوﺅں پر بھی حقوق کی پامالیوں کے الزامات عائد کئے گئے ہیںاطلاعات کے مطابق امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے سال2009کے بارے میں انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ منظر عام پر لائی ہے جس میں پوری دنیا کے اندر حقوق البشر کی صورتحال کے بارے میں سینکڑوں واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ بھارت کے اندر ہورہی انسانی حقوق کی پامالیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے جہاں مذکورہ رپورٹ میں شمال مشرقی ریاستوں اور نکسلواد سے متاثرہ علاقوں کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں، وہیں ریاست جموں و کشمیر میں رونما ہو رہی ہلاکتوں،عصمت دریوں ،گرفتاریوں اور شہریوں کو جبری طور لاپتہ کئے جانے کی بھی تفاصیل موجود ہیں۔ رپورٹ کے اندر کشمیر میں ہوئی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں ترتیب وار تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 20مارچ2009کو بھارتی افواج نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اہلکاروں نے22فروری کے روز بومئی سوپور میں2عام شہریوں کو ہلاک کر ڈالا۔ ریاستی حکام نے ابتداءمیں دعویٰ کیا تھا کہ دونوں شہری کراس فائرنگ کے دوران ہلاک ہوگئے ہیں۔ رپور ٹ میں شوپیان سانحہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ29اور30مئی2009کی درمیانی شب کے دوران آسیہ جان اور نیلوفر جان نامی بھابی نند کی ہلاکت کا واقعہ پیش آگیا۔ مذکورہ خواتین کے بارے میں الزام عائد کیا جارہا ہے کہ دونوں کو وردی پوش اہلکاروں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا۔ بعد ازاں ریاستی حکام کی طرف سے قائم کئے گئے ایک کمیشن نے بھی شوپیان میں دو خواتین کی ہلاکت کے بارے میں بتایا کہ ان میں پولیس کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ امریکہ کی طرف سے جاری انسانی حقوق کی رپورٹ میں کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے مزید بتایا گیا ہے کہ سال کے آغاز میں ہی5جنوری کے روز فوجی اہلکاروں نے پہلگام علاقے کے رہنے والے ایک بہرے اور گونگے شہری عبد الاحد ریشی کو سرینگر میں گولی مار ہلاک کر دیا اور7جنوری کو اس ہلاکت کے بارے میں اعلیٰ سطحی تحقیقات کا اعلان کیا گیا۔ 7مارچ2009کو پولیس نے سی آر پی ایف اہلکاروں کے خلاف ایک کیس درج کیا جس میں اُن پر الزام عائد کیا گیا کہ اُنہوں نے نوہٹہ سرینگر میں شبیر احمد آہنگر نامی ایک نوجوان کو ہلاک کردیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 28مارچ کو سی آر پی ایف حکام نے اس بات کو تسلیم کیا کہ 181ویں بٹالین سے وابستہ اہلکاروں نے18مارچ کوغلام محی الدین ملک نامی شہری کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔18مئی کو ٹاسک فورس اہلکاروں کے ہاتھوں منظور احمد بیگ کی حراستی ہلاکت کے بارے میں تحقیقات کا اعلان کیا گیاجبکہ13ستمبر کو ریاستی حکام نے راجوری میں نور حسن نامی شہری کی حراستی ہلاکت کے بارے میں جوڈیشل تحقیقات کے احکامات صادر کئے۔23اگست2009کو ریاستی حکام نے انکشاف کیا کہ 1990سے 3429شہریوں کو لاپتہ کیا گیا ہے جبکہ کشمیر میں سرگرم لاپتہ شہریوں کے والدین کی تنظیم کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی تعداد 10,000 ہے۔امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری رپورٹ میںکشمیر میں آئے دنوں کی گرفتاریوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق28اگست کو ریاستی سرکار نے صرف ایک سال کے دوران121شہریوں کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذ عمل میں لایا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عدالت کے ذریعے کشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کی طرف سے دائر کردہ ایک درخواست کے جواب میں5 فروری 2009کو اُن 10افراد کا سیفٹی ایکٹ کالعدم قرار دیا گیا جن کو امرناتھ زمین تنازعے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔کشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں بتایا کہ بار نے 2004سے 2223افراد کے سیفٹی ایکٹ کے خلاف عدالتوں کے اندر درخواستیں دائر کردیں۔رپورٹ میں حریت کانفرنس(گ) کے چیئر مین سید علی گیلانی کی نظر بندیوں کا بھی ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اُنہیں امرناتھ زمین تنازعے کے دوران پہلے پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا اور جب اُن کی رہائی عمل میں لائی گئی تو اُنہیں اُن کے گھر کے اندر نظر بند کیا گیا ۔ رپورٹ میں عدالتوں پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ کشمیر کی عدالتوں میں اُن کیسوں کی سرعت کے ساتھ شنوائی نہیں ہوتی ہے جو جنگجو مخالف اہلکاروں کے خلاف درج ہیں ۔ امریکی رپورٹ میں بھارت کی شمالی مشرقی ریاستوں میں ہورہی انسانی حقوق کی پامالیوں کا بھی ذکر موجود ہے اور نکسلواد سے متاثرہ علاقوں کے بارے میں تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ رپورٹ کے اندر کشمیر میں سرگرم جنگجوﺅں کے ہاتھوںبھی حقوق کی پامالیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ پولیس و فورسز اہلکاروں پر حملے کرتے ہیں اور اُن کو ہلاک کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کشمیر، چھتیس گڈھ اور مہاراشٹرا میں گولی باری کے واقعات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

No comments:

Post a Comment