Sunday, March 21, 2010

ریاست میں طلاق کے رجحان میں تشویشناک حد تک اضافہ

ریاستی خواتین کمیشن میں 7برسوں کے دوران طلاق کے800کیس درج
سرینگر//ریاست جموں و کشمیر بالخصوص وادی میںشادی شدہ جوڑوں کے ازدواجی رشتوں کے ٹوٹنے اور طلاق دئے جانے کے رجحان میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے جس کے نتیجے میں سماجی سطح پر سنگین صورتحال جنم لے رہی ہے۔ کشمیر میڈیا نیٹ ورک کے پاس تفصیلات کے مطابق ریاست میںاس وقت ایک ہزار شادی شدی جوڑوں میں9جوڑے طلاق کی راہ راہ اختیار کرتے ہیں جبکہ ریاستی کمیشن برائے خواتین کے پاس اس حوالے سے سال2000سے2007تک کے اعداد وشماربھی انتہائی تشویشناک ہیں۔ اس عرصے میں کمیشن کے پاس قریب800طلاق کے کیسوں کی تفصیلات پہنچی ہیں۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں شادی شدہ جوڑوں میں طلاق ہونے کی شرح ہوشربا حد تک بڑھ گئی ہے اور اس سلسلے میں خاص طورپروادی کشمیر سے متعلق اعداد و شمار قابل تشویش ہیں جس کے نتیجے میں شادی شدہ جوڑوں کے ساتھ ساتھ انکے بچوں کی سماجی زندگی انتہائی بری طرح س متاثر ہورہی ہے۔ریاستی کمیشن برائے خواتین کے پاس موجود اعداو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے اندر طلاق دینے کی شرح میں بہت حد تک اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے سماج گوں نا گوں مسائل سے دوچار ہورہا ہے۔اعدادوشمار کے مطابق اگرچہ 1999 تک کمیشن کو اس طرح کی قلیل یا نہ ہونے کے برابر شکایات موصول ہوئی ہیں۔تاہم سال2000میں جموں میں16اور کشمیر میں11طلاق کے واقعات پیش آئے۔اسی طرح2001میں صوبہ جموں میں16جبکہ وادی کشمیر میں23طلاق کے واقعات پیش آئے۔ اعداد و شمار کے مطابق سال 2002 سے وادی کشمیر میں طلاق کی شرح میں زبردست اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور تب سے مسلسل ہر سال طلاق کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔اس برس کے دوران جموں صوبے میں صرف23جبکہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں146طلاق ہوئے، سال2004میں جموں میں شادی شدہ جوڑوں میں طلاق کے 123جبکہ کشمیر میں137کیس پیش آئے۔ سال2006کے دوران طلاق کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا جس کے دوران صوبہ جموں میں 123جبکہ کشمیر میں137واقعات پیش آئے۔سال2007-08میں صوبہ جموں میں اگرچہ طلاق دئے جانے کی شرح میں کمی واقع ہوئی اور ایسے صرف7معاملات سامنے آئے تاہم کشمیرمیں یہ تعداد123رہی۔ اعدا دوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران وادی کشمیر میں طلاق دئے جانے کی شرح میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث یہاں کا سماج ایک نئے مسئلے سے دوچار ہورہا ہے۔سماجیات کے ماہرین کے مطابق طلاق کی بنیادی وجوہات گھریلو تنازعے ثابت ہوئے ہیں جن میں چھوٹے موٹے معاملات شامل ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ وادی میں نا مساعد حالات سے لوگوں میں پیدا ہونے والی نفسیاتی بیماریوں کو بھی طلاق کی ٹھوس وجہ بتایا جارہا ہے جبکہ شادی کے بعد بے روزگاری بھی اسکی ایک وجہ بنتی ہے۔اس طرح کی صورتحال کے منفی نتائج صرف شادی شدہ جوڑوںپر ہی نہیں بلکہ انکے بچوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں جنہیں طلاق کے باعث ماں یا باپ کے سایہ سے محروم ہونا پڑتا ہے اور نتیجے کے طور پر انکی ذہنی نشو نما بھی متاثر ہوتی ہے اور وہ سماج کے ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ابھرنے سے قاصر رہتے ہیں،انکی تعلیم و تربیت بھی متاثر ہوتی ہے اوروہ روزگار حاصل کرنے میں بھی ناکام ہوتے ہیں۔ اگرچہ سماجی ماہرین طلاق کی وجوہات کے بارے میں سماجی وجوہات بیان کرتے ہیں لیکن دینی علماءطلاق کی بنیادی وجہ دین اسلام سے دوری اختیار کرنا قرار دے رہے ہیں۔علماءکا کہنا ہے کہ اسلامی طریقوں کے مطابق ضابطہ حیات لاگو نہ ہونے سے سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور طلاق بھی ان میں ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ ہے۔اسلامی اسکالروں کا کہنا ہے کہ اگر ازدواجی زندگی کو اسلامی خطوط پر استوار کیا جائے تو طلاق کے واقعات پر قابل ذکر حد تک قابو پایا جاسکتا ہے لیکن اسکے لئے ضروری ہے کہ شادی شدہ جوڑے اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات کے ڈھانچے میں ڈالیں۔

No comments:

Post a Comment