Sunday, March 21, 2010

عالمی یومِ آب....جام شیریں سے پلاسٹک بوتلوں تکطارق علی میر

سرینگر//وادی کشمیر، جو کبھی عالمی سطح پر اپنے قدرتی آبی وسائل اور ذخائر کی وجہ سے مشہور و معروف تھی، میں پچھلے چند برسوں سے مختلف کمپنیوں کی طرف سے بوتل بند کئے جانے والے پانی کے استعمال کا رجحان غیر معمولی حد تک بڑھ چکا ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ کشمیر کے آبی ذخائر آلودگی سے اتنے متاثر ہو چکے ہیں کہ اب یہ ”امرت کے بجائے“ زہر لگنے لگا ہے۔ جہلم ہو یا جھیل ڈل یا پھر دیگر آبی ذخیرے، ایک سروے کے مطابق سطح زمین پر بہنے والا پانی90فیصد آلودگی کی زد میں آچکا ہے۔ تاریخ کے اوراق کی جب ورق گردانی کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کے چشموں سے پھوٹنے والے پانی کی مٹھاس نے نابغہ روزگار لوگوں کو دیوانہ بنایا تھا۔ کئی مغل بادشاہوں سے لے کر ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو تک کئی حکام چشمہ شاہی سے پانی خصوصی طور دہلی منگواتے تھے لیکن آج صورتحال اس کے برعکس ہے۔ آج کروڑوں روپے مالیت کا پلاسٹک بوتلوں میں بند پانی بیرون ریاست سے کشمیر درآمد کر کے یہاں استعمال کیا جاتا ہے۔ آبی ذخائر کے معروف ماہر ڈاکٹر عبد الرشید کندنگر کا کہنا ہے کہ بالائے زمین پانی کی تو بات ہی نہیں وادی میں 70فیصد زیر زمین پانی بھی آلودگی سے متاثر ہو چکا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ”کشمیر کے آبائی وسائل کی تاریخ سے واقف کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہاں کبھی کمپنیوں سے بوتل بند کئے گئے پانی کے استعمال پر ترجیح دی جائے گی“۔ ڈاکٹر کندنگر نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ”پہاڑی سلسلے کی بلندیوں پر واقع آبی ذخائر کسی حد تک اس لئے محفوظ ہیں کیونکہ وہ ابھی تک عام لوگوں کی دست برد سے محفوظ ہیں لیکن میرے مطابق ان میں بھی 4فیصدی آلودہ ہو چکے ہیں“۔ اُنہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ایک تفصیلی تحقیق عمل میں لائی گئی ہے، جس کے مطابق جنوبی کشمیر سے بہنے والے دریاﺅں ویشو اور ربنی آرہ بری طرح آلود ہیں اور زیر زمین نکلنے والے پانی میں کیمیائی اور حیاتیاتی آلودگی غیرمعمولی حد تک بڑھ رہی ہے جبکہ شمالی کشمیر میں کاسی پورہ،بونیار اور نورباغ کے آبی وسائل میں مضرصحت کیمیائی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر عبد الرشید کندنگر نے کشمیر عظمیٰ کو واضح الفاظ میں کہا کہ تاریخی دریائے جہلم اورشہرہ آفاق جھیل ڈل کا پانی کسی بھی طور پینے کے قابل نہیں ہے۔ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سرینگر میونسپل کارپوریشن کے ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر ریاض احمد نے کہا ”سرینگر میں اس وقت 5فیصد لوگ وہ ہیں جو پلاسٹک بوتلوں میں بند پانی کو مارکیٹ سے خرید کر پینے کےلئے استعمال میں لاتے ہیں تاہم یہ ہر ایک کی استطاعت میں نہیں ہے“۔ اُنہوں نے کہا کہ ”90فیصد لوگ ایسے ہیں جو کشمیر میں پانی کا استعمال ابال کر کرتے ہیں اور اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کے آبی وسائل کی پاکیزگی پر سے لوگوں کا اعتماد مکمل طور پر اُٹھ چکا ہے “۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ دن دور نہیں جب کشمیر کی آبگاہوں کا تذکرہ صرف کتابوں میں نظر آئے گا۔ ماہر ماحولیات ڈاکٹر فیروز احمد شاہ کہتے ہیں کہ ”کشمیر کے آبی وسائل میں آلودگی کی وجہ سے ہم نے کاشر گاڑ(مقامی نوع کی مچھلی) رفتہ رفتہ نایاب ہوتی جارہی ہے“۔ اُنہوں نے کہا کہ مقامی مچھلیاں صرف صاف و شفاف پانی میں ہی نشو و نماپ اتی ہیں لیکن اب جبکہ یہ آبگاہیں آلودگی کی زد میں آچکی ہیں، سب سے پہلی ضرب کشمیری مچھلی پر پڑی“

No comments:

Post a Comment