Thursday, April 22, 2010

دو کشمیریوںسمیت 3کوسزائے موت ایک کوجرمانہ اور عمرقید،فریدہ بہن جی سمیت 2چھوٹ گئے

نئی دلی//ستمبر2005میںپارلیمنٹ کیس کے سلسلے میں دلی کی ایک عدالت کی جانب سے محمد افضل گورو کو پھانسی کی سزا دینے کے بعد دوسری بار دلی کی کسی عدالت نے دو کشمیریوں کو موت کی سزا سنائی ہے۔14سال قبل لاجپت نگر دلی میں ہوئے دھماکے کے سلسلے میں 2کشمیری اور دلی کے ایک نوجوان کو کل سزائے موت سنائی گئی جبکہ ایک اور کشمیری کو عمرقیداورجرمانہ کی سزا کا حقدار قرار دیا گیا۔تاہم خاتون حریت رہنما فریدہ بہن جی سمیت 2کشمیریوں کو بالترتیب4سال اور7سال قید بامشقت اورجرمانے کی سزا سنائی گئی البتہ دونوں نے چونکہ پہلے ہی سزا کی مدت جیل میں کاٹی ہے لہٰذا اُنہیں بری کیا گیا۔ سزائے موت کے حقدار قرار دیئے گئے دونوجوانوں کا تعلق پائین شہر سے ہے اور ان میں سے ایک کے بھائی کو اسی کیس کے سلسلے میں گذشتہ دنوں 14 سال بعد رہا کیا گیا۔ 14سال قبل 21مئی 1996کو دلی کے لاجپت نگر علاقے میں ایک دھماکہ ہوا تھا جس میں 13افراد ہلاک اور 39زخمی ہوئے تھے جبکہ 14عمارتیں تباہ ہوئی تھیں۔ دھماکے کے بعد دلی پولیس نے 10افراد کی گرفتاری عمل میں لائی جن میں سے ایک خاتون سمیت 9 کا تعلق کشمیرسے ہے جبکہ ایک ترکمان گیٹ دلی کا رہنے والا ہے۔پولیس نے دعویٰ کیاتھاکہ گرفتار شدگان کا تعلق جموں کشمیر میں سرگرم عسکری تنظیم اسلامک فرنٹ سے ہے اورانہیں ان اطلاعات کے پکڑے جانے کے بعد حراست میں لیا گیا تھاجس میں انہوں نے ذرائع ابلاغ کو فون کرکے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔گرفتار شدگان میں شامل ماس مومنٹ کی سربراہ فریدہ ڈار عرف فریدہ بہن جی کو ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا جبکہ انجینئرفاروق احمد خان ساکن مین چوک اسلام آباد،محمد نوشاد ساکن ترکمان گیٹ دلی،مرزا افتخارساکن خانقاہ معلی سرینگر،اسکا بھائی مرزا نثار حسین، علی محمد بٹ عرف علی کلے ولد شےر دل بٹ ساکن رعناواری سرینگر،لطیف احمد وازہ ساکن کلاشپورہ سرینگر،سید مقبول شاہ لال بازار سرینگر،جاوید احمد خان ولد محمد شفےع ساکن ناﺅ پورہ خانیار سرینگر اور عبدالغنی گونی ساکن ڈوڈہ نظر بند تھے ۔ کیس کی عدالتی طوالت کی وجہ سے یکم اکتوبر2003کو دلی ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کو کیس کی سماعت روزانہ بنیادوں پر عمل میں لاکر چھ ماہ کے عرصے میں مکمل کرنےکی ہدایت دی تھی جبکہ 6اکتوبر2006کو عدالت عالیہ نے ایک بار پھر کیس کی سماعت ایک ماہ میں مکمل کرنے کے احکامات صادر کئے تھے۔لیکن اسکے باوجود کیس کی شنوائی ایک طویل عرصے تک جاری رہی اور4جولائی2008کو ہائی کورٹ نے وکلاءکے دلائل روزانہ بنیادوں پر سننے اور کیس کی سماعت30روز کے اندر اندر مکمل کرنےکی ہدایت جاری کی تھی۔ اس سلسلے میںڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج دلی ایس پی گرگ کی عدالت میں 18مارچ 2010کو تمام دلائل مکمل کر لئے گئے اور عدالت نے ملزمان کو سزا سنانے کا فیصلہ30مارچ منگل تک محفوظ رکھا تھا جبکہ عدالت نے بعد میں یہ فیصلہ8اپریل اور آخر پر 22اپریل کو صادر کرنے کا اعلان کیا۔کیس کی شنوائی کے دوران ملزمان کے وکیل ایڈوکیٹ خلیل انصاری نے عدالت میں کہاکہ لاجپت نگر مارکیٹ میں ہوئے دھماکے کے سلسلے میں جن نوجوانوں کوملوث قرار دیکر گرفتار کیا گیا، وہ بے قصور ہیں اوراُن کا دھماکے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ گرفتار شدگان پر فرضی الزامات عائد کرکے انکے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور حقیقت یہ ہے کہ انہیں دھماکے سے کئی روز قبل ہی حراست میں لیا گیا تھا۔ اس موقعہ پر عدالت میں چند نوجوانوں نے کہاکہ ان کی تحویل سے جوہتھیار ،گولیاں اور دھماکہ خیز مواد ضبط کرنےکا دعویٰ کیا گیاہے، اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ دلی میں ہوئے دھماکے میں ایسا ہی گولہ بارود استعمال کیاگیا تھا۔ ان نوجوانوں نے عدالت کے سامنے اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ انہیں دھماکوں سے قبل ہی دلی پولیس نے گرفتار کیااور وہ پولیس کی غیرقانونی حراست میں تھے۔ان نوجوانوں پر ملک کےخلاف سازش کرنے اورقتل سے متعلق قوانین کے تحت الزامات عائد کئے گئے اور کیس کی سلسلے میں100سے بھی زائد عینی شاہدین اور گواہوں کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ 18اپریل کو مذکورہ عدالت نے اس کیس پر اپنا حتمی فےصلہ صادر کرتے ہوئے سید مقبول شاہ ،عبدالغنی گونی ،مرزا افتخاراور لطےف احمد وازہ کو تمام الزامات سے بری کرتے ہوئے ان کی رہائی کے احکامات صادر کئے ۔ان چاروں کو بعد میں عدالتی احکامات پر رہا کردیا گیا،البتہ عدالت نے فاروق احمد خان ،فرےدہ بہن جی ،نوشاد احمد ،مرزا نثارحسین ،جاوید احمد خان اور علی محمد بٹ کو قصور وار قرار دےا۔ان میں سے 4ملزمان کو انڈین پینل کوڈکی دفعہ302اور307کے تحت جرم کا مرتکب ٹھہراےا گےا جبکہ فاروق احمد خان کو آرمز ایکٹ کی دفعہ 25اور فریدہ بہن جی کو اسی ایکٹ کی دفعہ5کے تحت قصور وار قرار دےا گےا ۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج دلی ایس پی گرگ کی عدالت میں کل اس کیس کی حتمی سماعت ہوئی اور عدالت نے حتمی فےصلہ صادر کیا ۔عدالتی فےصلے میں مرزا نثار حسین ساکن خانقاہ معلی سرینگر ،علی محمد بٹ عرف علی کلے ساکن حسن آباد رعناواری سرینگر اور محمد نوشادساکن ترکمان گےٹ دلّی کو پھانسی کی سزا سُنائی گئی جبکہ جاوید احمد خان ولد محمد شفےع خان ساکن ناﺅپورہ خانیار سرینگر کو عمر قےد کا حقدار قرار دےا گےا ہے۔اُن پر 35ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ اس کے علاوہ کیس کے ملزمان میں شامل ماس مومنٹ سربراہ فریدہ بہن جی کو4سال 2ماہ قیدبا مشقت اور10ہزار روپے کا جرمانہ عائد اور فاروق احمد خان ساکن اسلام آباد کو 7سال قید با مشقت کی سزا سُنائی گئی۔فاروق احمد خان پر5ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ تاہم یہ دونوں ایک طویل عرصے تک اس کیس کے سلسلے میںنظر بند رہے جسکے دوران انہوں نے اپنی سزا کی مدت پہلے ہی مکمل کر لی ہے اور عدالتی فےصلے کے مطابق دونوں کو مزید جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔

No comments:

Post a Comment