Saturday, April 3, 2010

جموںکشمیر میں شورش کے نتیجے میںیتیم بچے ایک لاکھ سے زائد: یونیسیف

سرینگر//اقوام متحدہ کے زیر نگرانی بچوں سے متعلق ادارے نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر میں گذشتہ دو دہائیوں سے جاری شورش کے نتیجے میں یتیم بچوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے جن کی دیکھ ریکھ کے بارے میں ابھی تک سرکاری سطح پر کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا گیاہے۔اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ کے ماتحت کئی ادارے سر گرم ہیں جو مختلف شعبوں کے اندر کام کررہے ہیں۔ ان میں ’یونیسیف‘ نام کا ادارہ دنیا بھر میں بچوں کی فلاح و بہبودسے متعلق کام پر مامور ہے۔ مذکورہ ادارہ بچوں کو درپیش مسائل اور ا ±ن کے حل کے بارے میں ماہرین کی مدد سے کوشاں ہے۔اس ادارے نے دنیا بھر میں بچوں کی فلاح و بہبود سے متعلق مختلف کام ہاتھ میں لے رکھے ہیں جن میں ا ±سے مقامی حکومتوں کا تعاون بھی شامل رہتا ہے۔’یونیسیف‘ نے دو روز قبل دنیا بھر میں یتیم بچوں سے متعلق ایک رپورٹ تیار کرکے جاری کی اور اس میں ریاست جموں وکشمیر کے بچوں کا بھی خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریاست میں گذشتہ دو دہائیوں سے ایک لاکھ سے زائدبچے یتیم ہوگئے ہیں اور ا ±ن کی حالت انتہائی قابل رحم بنی ہوئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقامی حکومت کی طرف سے یتیم بچوں کی دیکھ ریکھ کے بارے میں کوئی بھی موثر اقدام نہیں کیا جارہا ہے۔رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں بچوں کے یتیم ہونے کی وجہ صرف جاری شورش ہی نہیں ہے بلکہ یہاں کی غریبی،بیماری اوراستحصال بھی بچوں کے یتیم ہونے کی وجوہات میں شامل ہےں۔ ’یونیسیف‘ رپورٹ میں بتایا گیا ہے ” تنازعہ،غریبی اور خرابی صحت بھی یہاں کے بچوں کے یتیم ہونے کی وجوہات ہیں“۔ اقوام متحدہ کے ماتحت ادارے کا کہنا ہے کہ اگر چہ کئی غیر سرکاری رضاکار تنظیمیں جموں کشمیر کے یتیم بچوں کی حالت سدھارنے کے لئے متحرک ہیں تاہم سرکاری سطح پر اس سلسلے میں کوئی بھی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک مقامی غیر سرکاری رضاکار تنظیم کی طرف سے جمع اعداد وشمار میں بتایا گیا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر میں جاری شورش کی وجہ سے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران97200بچے یتیم ہوگئے ہیں۔ رضاکار تنظیم کا ماننا ہے کہ ا ±س نے جو اعداد وشمار جمع کئے ہیں ا ±ن کے مطابق”2008تک ریاست جموں و کشمیر میں97200یتیم بچے اور32400بیوائیں تھیں اور اس تعداد میں اضافہ کا رحجان جاری تھا“۔ این جی او رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے” جاری تنازعہ کی وجہ سے یہاں کے شہریوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے“۔ یہ ا مر قابل ذکر ہے کہ غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گذشتہ دو دہائیوں کے دوران ریاست میں ایک لاکھ لوگ ہلاک ہوگئے جن میں زیادہ تر جنگجواور عام شہری شامل ہیں۔ ہلاکتوں کی وجہ سے بچوں کی ایک بڑی تعداد کو یتیم ہونا پڑا اور ا ±ن میں سے ہزاروں بچے کسمپرسی کی زندگیاں جی رہے ہیں۔سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہلاک شدگان کی جواں سال بیوائیں اکثر دوسری شادی کرتی ہیں اور ا ±ن کے پہلے بچوں کی طرف بعد میں کوئی خاص توجہ مرکوز نہیں ہوتی ہے اور وہ ہر سطح پر متاثر ہوجاتے ہیں۔یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت اور ا ±ن کی دیکھ ریکھ کے لئے اگر چہ یہاں متعدد ادارے سرگرم ہیں مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کی اصل تربیت ا ±ن کے اقربائ کے پاس ہی ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق یتیم ہوئے بچوں کو یتیم خانوں میں ڈالنے سے بہتر ہے کہ ا ±ن کے والدین کے اقربائ ہی ا ±ن کی پرورش کریں۔

No comments:

Post a Comment