Saturday, April 17, 2010

ایس ایم ایس سروس پر پابندی عائد

فیصلہ قبول نہیں ،نظر ثانی کی جائے :عمر عبداللہ
سیرنگر:جموںو کشمیر میں پری پیڈ موبائل سرو س پر اڈھائی ماہ کی پابندی کے بعد حکومت ہندوستان نے ریاست میں اب ایس ایم ایس سروس پر پابندی عائد کرنے کے احکامات صادر کئے ہیں ۔مواصلاتی کمپنیوںسے کہا گیا ہے کہ وہ صارفین کو ایس ایم ایس سروس بند کرکے سرکاری احکامات پر فوری عمل درآمد شروع کریں جو16اور17اپریل2010 کی درمیانی رات سے لاگو ہوںگے۔اس دوران پری پیڈ موبائل سے بھیجے جانے والے پیغامات کو بھی محدود کردیا گیا ہے جبکہ مواصلاتی کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ بھارت اور دنیا کے دیگر خطوں سے بھی جموں و کشمیر کی حدود میں کو ئی ایس ایم ایس نہیں موصول ہونا چاہئے۔جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایس ایم ایس سروس پرپابندی عائد کئے جانے کے فیصلے کیخلاف مرکزی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر اس پابندی کو ہٹا لیں کیونکہ ریاستی حکومت کے ساتھ اس معاملے پر کوئی مشاورت نہیں کی گئی لہٰذا اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔ بھارت کی وزارت اطلاعات و نشریات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرف سے جموںوکشمیر میں سبھی موبائل سروس لائسنس ہولڈروں کو ہدایات جاری کئے گئے ہیں کہ وہ شارٹ مسیج سروس(ایس ایم ایس ) کی اپنی سہولیات بند کریں۔ مواصلاتی کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ان ہدایات پر فوریطور پر عمل درآمد شروع کریں۔مرکزی وزارت کے محکمہ ٹیلی کمیو نیکیشن کی طرف سے مواصلاتی کمپنیوں کو جاری ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ اس حکم کا اطلاق 16اور17اپریل کی درمیانی رات سے لاگو ہوگا۔اس حکمنامے کے مطابق سروس ائیریا میں پری پیڈ صارفین کو بھی باہر بھیجنے والے ایس ایم ایس کیلئے حد مقرر کی گئی ہے اور اب پری پیڈ صارفین کوبھی روزانہ 10ایس ایم ایس بھیجنے کی اجازت ہوگی۔جموں و کشمیر کیلئے جاری کئے گئے اس حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ جموںوکشمیر کے پوسٹ پیڈ صارفین کو کوئی بھی ایس ایم ایس بھیجنے یا موصول کرنے کی سہولت دستیاب نہیںہوگی ۔حکمنامے کے مطابق مواصلاتی کمپنیوں کومزید ہدایات جاری ہونے تک ایس ایم ایس سروس بہم پہنچانے کی اجازت نہیں ہوگی ۔حکمنامے میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی شخص یاتنظیم اورنہ ہی کسی ایجنسی کو جموںوکشمیر میں کسی بھی سسٹم کے ذریعے صارفین کو زیادہ تعداد میں ایس ایم ایس بھیجنے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ایس ایم ایس سروس پر پابندی عائد کرنے کیلئے مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سیکورٹی کو جواز قرار دیا ہے۔متعلقہ سروس فراہم کرنے والوں سے کہا گیا ہے کہ ہدایات پر عمل درآمد کے سلسلے میں رپورٹ ٹیلی کام انفورسمنٹ رسورس اور مانٹرینگ سیل جموںوکشمیر کو بھیجی جائے اور اس کی ایک کاپی محکمہ ٹیلی کام کو 19اپریل2010تک روانہ کی جانی چاہیے۔یاد رہے کہ جن 12مواصلاتی کمپنیوں کے نام ہدایات جاری کئے گئے ہیں ان میں بی ایس این ایل،بھارتی ائرٹل،ڈش نیٹ وائرلیس لمیٹیڈ،رلائنس کمیونیکیشن لمیٹیڈ،ووڈا فون ایسار لمیٹیڈ،ڈاٹا کام سولیوشن پرائیویٹ لمیٹیڈ،آئڈیا سلولر لمیٹیڈ،لوپ ٹیلی کام پرائیویٹ لمیٹیڈ،ایس ٹل پرائیویٹ لمیٹیڈ،سسٹما شام ٹیلی سروسز لمیٹیڈ،ٹاٹا ٹیلی کام سروسز لمیٹیڈ اور یونیٹک وائرلیس (نارتھ) پرائیوٹ لمیٹیڈ شامل ہیں۔جموں و کشمیر میں ایس ایم ایس سروس پر پابندی کو بد قسمتی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس کے خلاف احتجاج کریں گے کیونکہ ریاستی حکومت اور خود بحیثیت وزیر داخلہ کے ان کے ساتھ بھی کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور نہ ہی ریاست کے ڈائریکٹر جنرل پولیس کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔جموں میں نامہ نگاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ ریاستی حکومت نے جو تجویز پیش کی تھی اس کو صحیح معنوں میں نہیں لیا گیا ہے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ گذشتہ دو برسوں سے کچھ نام نہاد نیوز ایجنسیز بڑی مقدار میں پیغامات بھیجتے ہیں جن میں خبروں کے بجائے افواہیں اور قیاس آرائیاں ہوتی ہیں اور اس کیلئے لوگوں کو 500روپے ادا کرنے کیلئے کہا جاتا ہے ۔ عمر عبداللہ نے انتہائی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سخت لہجے میں کہا کہ یہ پابندی ریاستی حکومت کیلئے ناقابل قبول ہے اورمتعلقہ مرکزی محکمے کو بنا کسی تاخیر کے اس پابندی کو واپس لینے کیلئے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ عمر عبداللہ نے مرکزی سرکار سے اپیل کی کہ فی الحال یہ فیصلہ التوا میں ڈال دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاستی حکومت کی طرف سے اس معاملے پر صحیح صورتحال سامنے لائی جائے ۔وزیر اعلیٰ نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ'' آخر مرکزی حکومت کو سیکورٹی کے اعتبار سے صرف کشمیر میں ہی تجربے کرنے کی فرصت کیوں ملتی ہے۔شمال مشرقی ریاستوں میں فوج کو زبردست نقصان پہنچ رہا ہے اور وہاں حالات انتہائی خراب ہیں لیکن وہاں نہ موبائیل سروس بند ہوتی ہے اور نہ ہی سیکورٹی کے اعتبار سے سخت اقدامات اٹھائے جاتے ہیں''۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت اور ریاست میں سیکورٹی کے حوالے سے تال میل کا فقدان نظر آرہا ہے جس کے باعث اس طرح کے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر میں اس وقت مختلف موبائیل کمپنیوں کے40لاکھ سے زائد صارفین موبائیل سہولیات کا استعمال کر رہے ہیں ۔واضح رہے کہ گذشتہ سال یکم نومبر کو مرکزی وزارت داخلہ کی ہدایت پر جموں کشمیر میں پری پیڈ موبائیل فون سروس پر پابندی عائد کی گئی تھی جس کے بعد جنوری 2010ء میںموبائیل صارفین کی سخت ترین چھان بین کی شرائط پریہ پابندی ہٹائی گئی تھی ۔

No comments:

Post a Comment