Saturday, April 17, 2010

وادی کے صحافیوں کوفرائض کی ادائیگی میں شدید خطرات کاسامنا

سیرنگر:عالمی ادارے برائے صحافت نے جنوبی ایشیا کی سالانہ پریس فریڈم رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں صحافت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے فرائض انجام دینے میں شدید ترین چلینجوں وخطرات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شورش زدہ کشمیر میں کشمیر ی صحافیوں کو اپنے کام کے دوران جانوں کا بھی ہمیشہ خطرہ رہتا ہے جس کی تازہ ترین مثال روال سال کے جنوری مہینے میں وادی کشمیر کے سرکردہ اخبار گریٹر کشمیر کے فوٹو جرنلسٹ امان فاروق کی ہے ۔ اس جاری کردی رپورٹ کو عالمی آزادی صحافت کے دن پر باضابطہ اجرا کیا جارہا ہے ۔ ذرائع کے مطابق جموں وکشمیر کو ایک بار پھر صحافی زون کے حوالے سے عالمی ادارے برائے صحافت نے خطرناک قرار دیتے ہوئے اپنی ایک تازہ رپورٹ دی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس ریاست میں گذشتہ سالوں کی طرح ہی سال 2009میں بھی پرنٹ والیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو اپنے فرائض اداکے دوران کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا حتیٰ کہ ان کے جانوں کو بھی سنگین ترین خطرات لاحق ہوئے ۔ اپنی تازہ ترین رپورٹ میں عالمی صحافتی ادارے کی طرف سے گذشتہ سال 2009کی جو جنوبی ایشیا کے حوالے سے سالانہ پریس فریڈم رپورٹ جاری کی گئی ہے اس میں ریاست جموں وکشمیر کا خصوصی طور ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس شورش زدہ ریاست میں گذشتہ 22سالوں کے دوران ہتھیار بند جنگجوئوں اور فورسز کے درمیان چلی آرہی تصادم آرائیوں کا ریاست جموں وکشمیر کے صحافیوں پر اثر پڑا اور ان سالوں کے دوران کئی صحافیوں کو اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور اب بھی ایسے ہی حالات کا کشمیر کے صحافیوں کو سامنا کرنا پررہا ہے ۔ جنوبی ایشیا کی جو سالانہ پریس فریڈم رپورٹ جاری کی گئی اس میں جموں وکشمیر کے حالات کا خصوصی تذکرہ کیا گیا ہے ۔ سی این ایس کے مطابق اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ گذشتہ سال 2009میں کشمیر کے صحافیوں کو شوپیان واقع کے تشہیر کی وجہ سے عتاب کا نشانہ بننا پڑا خاصکر مقامی نیوز چینلوں اور اخباری اداروں کو کافی مشکلات پیش آئیں اور سال 2010میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ اس سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2009کے مئی مہینے میں شوپیان کی دو جوان سال لڑکیوں کی ہلاکت کے بارے میں مختلف میڈیا چینلوں نے اس واقعے کی جوآزادانہ رپورٹنگ کی اس کی وجہ سے حکومتی اداروں کی طرف سے صحافیوں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور کئی کے خلاف پولیس ایکشن بھی لی گئی ۔ اپنی تازہ ترین رپورٹ میں سال 2010کے جنوری مہینے میں پیش آئے لالچوک واقعے کا بھی ذکر کیا گیا اور بتایا گیا کہ ہتھیار بند جنگجوئوں اور فورسز کے درمیان تصادم آرائی میں بھی کشمیرکے ایک فوٹو کے جرنلسٹ کو عتاب کا نشانہ بنایا گیا جب اس واقعے کی عکس بندی کے دوران روزنامہ گریٹر کشمیر اور کشمیر اعظمیٰ کے فوٹو گرافر امان فاروق پر ایک پولیس افسر ے گولی چلائی جس کی وجہ سے وہ زخمی ہوگیا ۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لالچوک واقعے کے دوران پولیس کے کئی آفسروں نے دوسرے میڈیا نمائندوں سے بھی بُرا سلوک کیا اور ان دونوں معاملوں پر کشمیر کی صحافتی برادری نے احتجاج بھی کیا۔ سالانہ پریس فریڈم رپورٹ میں بتایا گیا کہ محکمہ داخلہ کے سینئر افسروں کے ان بیانات کا بھی حوالیہ دیا گیا ہے جس میں شوپیان واقع کو پیش کرنے کیلئے میڈیا پر الزام لگایا گیا کہ وہ اپنے حدود سے زیادہ آگے چلے جارہے ہیں جس کی وجہ سے انتظامیہ کو ضرورت کے مطابق کاروائی کرنی پڑتی ہے ۔ سی این ایس کے مطابق اس سالانہ رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں صحافیوں کو اپنے فرائض انجام دینے کیلئے بدستور چلینجوں اور خطروں کا سامنا ہے اور جاری شورش میں ان کو زبردست خطرات لاحق ہیں۔ کئی صفات پر مشتمل رپورٹ ورلڈ پریس فریڈم ڈے پر باضابطہ جاری کی جارہی ہے ۔

No comments:

Post a Comment