Sunday, April 4, 2010

جو مردہ قرار دیاگیاتھا،60سال بعدگھر واپس آیا

کنڈی (نطنوسہ کپوارہ)//75سالہ غلام رسول ماگرے ، جس کے بارے میں یہ خیال کیا جارہا تھا کہ وہ فوت ہو چکا ہے، 60 سال کے طویل عرصے کے بعد واپس گھرآگیا ہے۔ 13سال کی عمر میں 1950میں کنڈی نطنوسہ کاغلام رسول ماگرے اپنے بھائی کے ساتھ جھگڑا کر کے گھر چھوڑ گیا اور پھر واپس نہیں آیا۔ اُنہوں نے کشمیر عظمیٰ کےساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا”بچپن میں گاﺅں کے دیگر لوگوں کے ہمراہ سرینگر میںمیں ایک پیرصاحب کے پاس ملنے گیااور وہیں کا ہوکررہ گیا۔کچھ عرصہ بعد میرے گھر میں میرے والد اکبر ماگرے فوت ہوئے لیکن میرے بھائی نے مجھے اس کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں دی ،جس پرمجھے بہت حیرت اور افسوس ہوا،جب میں ایک مہینے کے بعد گھر واپس آیا تو اس بات پرمجھے بہت غصہ تھااورمیں نے اپنے بھائی کےساتھ جھگڑا کر کے اُسے گھرسے بھاگ جانے کی دھمکی دی ۔جب میں نے گھر سے بھاگ جانے کی دھمکی تو میرے بھائی نے گاﺅں کے نمبردار کو اس بارے میں آگاہ کیا۔چونکہ اُس زمانے میںگاﺅں کے نمبردار سے لوگ بہت ڈرتے تھے، لہٰذا نمبردار کے غیض و غضب سے بچنے کی خاطر میں اپنے گھر سے بھاگ کھڑا ہوا لیکن اس سے پہلے اپنے والد کی قبرپر فاتحہ پڑھنے کے لئے گیا۔ گھرسے بھاگ کر میںپہلے سوپر اور بعد میںسرینگر میں دو مہینے تک رہاجسکے دوران چھوٹے موٹے کام کرتا رہا“۔ اُنہوں نے مزید بتایا ”اس کے بعد میں ایک میوہ ٹرک میں سوار ہوکرجموں چلا گیا جہاں میں نے کچھ وقت تک مزدوری کی اور اِسی دوران ایک ٹھیکیدار ،جو فوج کو سامان سپلائی کرتا تھا، سے میری جان پہچان ہوئی اور 10سال تک میں اسی ٹھیکیدار کے ساتھ کام کرتا رہا۔ اس مدت کے دوران ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دو جنگیں بھی ہوئیں اور فوجی ٹھیکیدار کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے اُن دنوں وہ بین الاقوامی سرحد اور لائن آف کنٹرول کے نزدیک رہ کر جنگوں کی تباہ کاری کا مشاہدہ کرتا رہا، جموں سرحد پر 9روز تک گولہ باری کے بیچ پھنس کر جب میں وہاں سے چلاگیا تو خوف سے وہ نوکری چھوڑ دی “۔غلام رسول نے مزید کہا ”جنگ کے وہ لمحات ابھی تک میرے دل و دماغ میں پیوست ہیںاوروہ مجھے خوفزدہ کر رہے ہیں“۔ غلام رسول ماگرے نے بتایا”میں چنڈی گڑھ پنجاب چلا گیا جہاں میں نے ایک زرعی کارخانے میں کام کیا اوروہاں مجھے لوگ کٹاریہ کے نام سے جاننے لگے ، میں کبھی کبھی فٹ پاتھوںپر بھی سویا اور کبھی دیگر مزدوروںنے مجھے سونے کیلئے جگہ فراہم کی“ ۔اُنہوں نے کہا”اس طویل عرصے کے دوران مجھے کبھی کبھی گھر کی یاد بھی ستاتی تھی لیکن واپس نہیں آسکا ، جموں سے چنڈی گڑھ آنے کے بعد قریب 35برس کا عرصہ گذر چکا اور اس دوران مجھے اِسی علاقے کا ایک شخص پنجاب میں ملا اور اس کے ذریعے میں نے اپنے بھتیجے کے بارے میں سنا، دو ماہ قبل میری صحت بگڑ گئی اور میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اب مجھے واپس گھر جانا چاہئے لیکن بچپن کی تمام یادیں تحلیل ہو چکی تھیں صرف مجھے نطنوسہ کا پل یاد تھا اور اپنے بھتیجے غلام احمد ماگرے کا نام ۔ جس شخص کے یہاں میں اس طویل عرصے کے دوران کام کرتا رہا وہ انتہائی نرم دل نکلا اور اس نے مجھے واپس گھر بھیجنے کی حامی بھر لی اور دو ملازمین کو میرے ساتھ جموں بھیج دیا جہاں میں ایک ٹرک میں سوار ہوکرسرینگر پہنچ گیا“۔ غلام رسول نے بتایا ”میں پچھلے ہفتے جب گھر واپس آگیا تو نطنوسہ پل پر پہنچ کر میں رک گیا اور اپنے بھتیجے غلام احمد ماگرے کے بارے میں جانکاری حاصل کرتا رہا، اس گاﺅں میں مجھے کوئی نہیں جانتا تھا لیکن اتنے میں یہ خبر پھیلی کہ میں مرا نہیں بلکہ 60سال کے بعد گھر واپس آیا ہوں اور میرے بھتیجے کی اہلیہ وہاں سے گذر رہی تھی اور وہ مجھے اپنے ساتھ گھرلے آئی“۔ غلام رسول کے بھتیجے غلام احمد ماگرے نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ”ہم نے غلام رسول کوفوری طور پہچان لیا کیونکہ اُس کی شکل و صورت گھر کے دیگر افراد کے ساتھ ملتی جلتی ہے، میرے والد جبار ماگرے اکثر و بیشتر اپنے بھائی کے بارے میں یہ کہتا تھا کہ وہ گھر سے بھاگ گیا ہے اورمر گیا ہے، میرے والد نے اپنے بھائی کی تلاش میں 4سال تک دردر کی خاک چھان ماری لیکن کہیں سے بھی وہ غلام رسول کو ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوئے اب جبکہ وہ گھر واپس آگئے ہیں ہمیں یقین نہیں ہورہا ہے کہ غلام رسول ہمارے درمیان موجود ہیں۔ اُن کے ایک رشتہ دار ساجہ بیگم نے بتایا ”جیسے ہمارے والدین نے غلام رسول کے بارے میں بتایا تھا ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ زندہ ہیں اور کبھی واپس بھی آئیں گے لیکن اُن کی واپسی ہمارے لئے کسی کرشمہ سے کم نہیں“۔

No comments:

Post a Comment